بسم
الله الرحمـن الرحيم
والصلاة
والسلام على خاتم النبيين
وعلى
اهل بيته الطيبين الطاهرين المظلومين
خاکسار
پر الہام ہوا ہے کہ جاو، توحید کا تبلیغ
کرتے رہو، اور وہی ربّ تمہارا ساتھ ہوگا
جو موسی اور ہارون کا ربّ ہے۔ علی نبینا
وعلیہما الصلوات والتسلیمات۔ میں ملک
کینیڈا میں ایک اجنبی ہوں، اس لیے کہ اگرچہ
میرا پیدائش یہاں کا ہے، میرے آباؤ
اجداد سر زمین ہند کے تھے، سو میں اس سماج
کا نہی ہوں۔ اس کے علاوہ، میں کلمہ گو مسلم
ہوں، اور دین اسلام کا وہ خاص سلسلہ کا
وارث ہوں جو سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل
شہید نے دنیا میں قائم کیے تھے۔ علیہما
الرضوان۔ سو جس طرح ان دونوں نے توحید
خداوندی کی خاطر جہاد کیے تھے، میں بھی
اس کام کے لیے مأمور ہوا
ہوں۔ کیا کوئی مؤمن میرا
اس وزارت توحید پر اعتراض کرسکتا ہے؟
انگریز کے درمیان رہائش پذیر ہوں۔ یہ میرا
قوم نہی ہے۔ سو جس طرح نبی یونس علیہ السلام
نینواہ شہر کی طرف مبعوث کیا گیا، حالانکہ
وہ اسرائیلی تھے اور نینواہ والے نے آپ
کو غیر ملکی تصور کیے تھے، حکمت الہی نے
میرے لیے بھی یہی فیصلہ کی کہ غیروں کے
وطن میں رہے گا۔ میں اس قوم کو انتہا حکارت
کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ ان کے پاس نہ کوئی
شریعت ہے اور نہ کوئی ہدایت۔ بہر حال،
ہمارا امت مسلمہ کی اپنی حالت خراب ہے۔
قبروں اور مردوں سے مانگتے ہیں۔ شریعت کی
احکام اور حلال و حرام کو بڑی آسانی کے
ساتھ در کنار کرتے ہیں۔ ہر جگہ عریانی و
فہاشی کو فروغ دیے ہیں۔ زنا اور شراب کا
بازار گرم ہے۔ نماز کی طرف اکثر مسلمان
کو خیال ہی نہی آتا۔ جھوٹ اور بدمعاشی
مسلمان کے عادت بن چکی ہے۔ اس صورت حال
میں کوئی شخص اگر اندھا کیوں نہ ہو، اگر
اس کے دل میں بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ امت
مسلمہ راہ راست سے ہٹ گئی اور انہیں اصلاح
کا ضرورت ہے۔ اصلاح کے خاطر اللہ جل شانہ
نے سلسلہ نبوت جاری فرمایا تھا۔ سو، آدم
صفی اللہ سے لیکر حضرت محمد نبی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم تک، نبی اور رسول آتے رہے
اور لوگوں تک پیغام خداوندی پھنچاتے رہے۔
لیکن جب دین کو مکمل کرنے کا ارادہ تھا،
تو آخری نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم کو دنیا میں مبعوث فرمایا۔ سو سلسلہ
نبوت ختم ہو چکی ہے، لیکن ابھی بھی ہدایت
و اصلاح و تجدید کی ضرورت ہے۔ قیامت تک
اسکی ضرورت ہوگی۔ لہاذہ، ختم نبوت کی آر
میں یہ باطل خیال نہ کر کہ اب اللہ نے انسان
کے ساتھ کلام کرنا چور دیا۔ متکلم ہونا
اللہ وحدہ لا شریک کا ذاتی صفت ہے۔ اللہ
جو سچا خدا ہے اور جھوٹے معبودان یعنی
اصنام و اوثان میں یہ فرق موجود ہے کہ سچا
الہ بولتا ہے جبکہ دوسرے گونگے ہیں۔ چنانچہ
اللہ رب العزۃ اپنا کلام مقدس میں فرماتا
ہے کہ
أَلَمْ
يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا
يَهْدِيهِمْ سَبِيلً
کیا
بت پرستوں نے یہ نہی دیکھا کہ انکے بت نہ
ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ان کو راستہ
دکھا سکتا ہے۔
افسوس
کہ ہمارے جاہل ملاوں نے ختم نبوت کی آر
میں اللہ تعالی کا صفت متکلم کو معتل کیا
ہے، اور انکے تصور خدا ویسا ہے جیسے کہ بت
پرستوں کا ہے، یعنی ایک ایسا خدا جو نہ
لوگوں سے بات کرتا ہے اور نہ ان کو ہدایت
دے سکتا ہے۔ یہ زمانہ کا بدترین الہاد ہے۔
علماء کے خرابی کا واضح علامت ہے۔ یقین
کر، ہمارے علماء کے دلوں ویسے ہیں جیسے
یھود کے احبار کے تھے، یعنی ایک دم سخت
اور کالے۔ سو اپنا دل کو نرم کر، تا اللہ
عز وجل اس میں اپنا روح القدس اس میں نفخ
کرے گا۔ اور تم نور الہام سے اپنا سینہ کو
منوّر پاو گے۔ اللہ کا پاک نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے امت اجابہ کو بشارت دی کہ ہر
صدی کا آغاز میں اللہ لاظماً
ایک مجدد کو مبعوث فرماے گا۔ مجدد نبی
علیہ السلام کا خلیفہ، وصی، وارث، وزیر،
نائب، اور وکیل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ،
مجدد مامور من اللہ ہے، اور لاظماً
صاحب الہام و کشف بھی ہے۔ وہ تجدید
دین کے لیے مہنت کرتا ہے، اور لوگوں کے
غلط عقائد و افعال کے تصحیح فرماتا ہے۔
اور اودہ تجدید کا ساتھ ساتھ سلسلہ ولایت
بھی ہے۔ ولی اللہ وہ ہے جن کا رات عبادت و
ذکر الہی میں گزرتا ہے۔ وہ شریعت کا سخت
پابند اور سنّت رسول صلی اللہ علیہ کا
عکسی تصویر ہوتا ہے۔ اگرچہ اس زمانہ میں
اولیاء اللہ کے تعداد نسبتاً
قلیل ہے، یہ مبارک افراد انبیاء بنی
اسرائیل کے مثل ہیں۔ اور جیسے میں نے آغاز
میں اشارہ کیا، خاکسار یونس نبی علیہ
السلام کا مثیل تو نہی ہوں، لیکن آپ کا
شان کا ایک جھلک مجھ میں نظر آتا ہے۔ سو
میں بھی ایک وقت مچھلی کا پیٹ میں تھا،
لیکن اللہ سبحانہ نے مجھے وہاں سے نکالا
تھا، کیوںکہ میں نے یونس رسول علیہ السلام
کی طرح ربّ کو پکارا تھا۔
کوئ
ذی شعور آدمی یہ سب کچ پڑھ کر یہ خیال کر
سکتا ہے کہ خاکسار وہی باتیں دہرا رہا ہے
جو صوفیاء حضرات فرماتے ہیں۔ البتہ میں
کوئی صوفی نہی ہوں۔ آج کہ صوفیاء خرفات
اور بدعات میں غرق ہیں الّا ما شاء اللہ۔
یہ طبقہ علماء کے طرح خراب ہوا ہے۔ میں
دنیا کو بتانے کے لیے آیا ہوں کہ انکے
خرابی کی جڑ دین کو روزی کمانے کا ذریعہ
بنانے کا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے یہود و
نصاری کو حلاک کیا تھا۔ اچھی طرح ذہن نشین
کر کہ درباری ملّا کبھی حق کا پرچار کر ہی
نہی سکتا۔ دنیا کے ریاستیں اور دولت مند
طبقہ پوری طرح ابلیس کا قبض قدرت میں ہے۔
بہر حال، جب بھی کوئی سچا ولی اللہ دنیا
میں ظاہر ہوگا، ان کے دشمنان کے اوّل صف
میں ملّا اور جعلی پیر ہونگے۔ تصوّف کا
محض نام رہا، ورنہ اصل صوفی وہ ہے جو قدیم
صوفیاء کے طرح شہرت نہی چاہتا بلکہ اللہ
تعالی کا موّدت میں غرق ہے۔ اسکا دل ربّ
الہ کا غیرت کے لیے جلتا ہے۔ سچا صوفی وہ
ہے جس کے باطن یعنی سیرت کو دیکھ کر کسی
قدیم اسرائیلی نبی کا یاد تازہ ہو جاتا
ہے۔
میری
دعوت ایک الہامی دعوت ہے۔ دل میں روح القدس
نے یہ باتیں القی فرمائی کہ اللہ کی وحدانیت
کی طرف بلاو۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ فقط ایک
خدا کا عبادت و عکافت کیا کر۔ مزارات کی
عکافت چھوڑ۔ یہ پہلا گوھر ہے۔
پھر
یہ دعوت ہے کہ شریعت مصطفوی اور سنّت
مبارکہ پر عمل کر۔ اس دعوت کی تفصیل یہ ہے
کہ حرام کاموں سے پرہیز کر، اور نبی مطہر
صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے سنّتیں کو
پکڑ۔ یہ دوسرا گوھر ہے۔
پھر
یہ دعوت ہے کہ دنیا کی محبت دل سے نکال،
اور کثرت عبادب یعنی نماز، دعا، ذکر الہی،
تسبیحات، نبی کریم پر درود و سلام، اور
تلاوت قرآن کریم کیا کر۔ یہ تیسرا گوھر
ہے۔
پھر
یہ دعوت ہے کہ غریب، یتیم، کمزور، بیمار
اور لاوارث کا خدمت کر۔ یہ تصفیت قلب کا
ایک جیّد طریقہ ہے اور دین اسلام کے اخلاقی
تعلیم میں سے ہے۔ یہ چوتھا گوھر ہے۔
پھر
یہ دعوت ہے کہ انبیاء و رسل علیہم السلام
کے سیرت پر چل کر، نکل کر دعوت و تبلیغ کا
کام انجام دے۔ لوگوں کو کلمہ طیبہ یعنی
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی طرف
بلا۔ اس کام کو عبادت کی نیت سے کر۔ یہ
پانچواں گوھر ہے۔
سو
اللہ سبحانہ وتعالی نے میرا دل میں یہ
پانچ جواہر ڈال دیا۔ میں عوام الناس کو
اپنی ذات کی طرف نہی بلاتا، بلکہ ذات
کبریاء جلّ جلالہ کی طرف دعوت مقصود ہے۔
وَمَا
عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
خاکسار
عبد
القادر ملہم
No comments:
Post a Comment